غزل ۔۔۔ عرفان ستار

غزل

عرفان ستار

بتاتا ہے مجھے آئینہ کیسی بے رُخی سے

کہ میں محروم ہوتا جا رہا ہوں روشنی سے

کسے الزام دوں میں رائگاں ہونے کا اپنے

کہ سارے فیصلے میں نے کیے خود ہی خوشی سے

ہر اک لمحہ مجھے رہتی ہے تازہ اک شکایت

کبھی تجھ سے، کبھی خود سے، کبھی اس زندگی سے

مجھے کل تک بہت خواہش تھی خود سے گفتگو کی

میں چھپتا پھر رہا ہوں آج اپنے آپ ہی سے

وہ بے کیفی کا عالم ہے کہ دل یہ چاہتا ہے

کہیں روپوش ہو جاؤں اچانک خامشی سے

سکونِ خانۂ دل کے لیے کچھ گفتگو کر

عجب ہنگامہ برپا ہے تری لب بستگی سے

تعلق کی یہی صورت رہے گی کیا ہمیشہ

میں اب اُکتا چکا ہوں تیری اس وارفتگی سے

جو چاہے وہ ستم مجھ پر روا رکھے یہ دنیا

مجھے یوں بھی توقع اب نہیں کچھ بھی کسی سے

ترے ہونے نہ ہونے پر کبھی پھر سوچ لوں گا

ابھی تو میں پریشاں ہوں خود اپنی ہی کمی سے

رہا وہ ملتفت میری طرف پر اُن دنوں میں

خود اپنی سمت دیکھے جا رہا تھا بے خودی سے

کوئی خوش فکر سا تازہ سخن بھی درمیاں رکھ

کہاں تک دل کو بہلائوں میں تیری دل کشی سے

کرم تیرا کہ یہ مہلت مجھے کچھ دن کی بخشی

مگر میں تجھ سے رخصت چاہتا ہوں آج ہی سے

وہ دن بھی تھے تجھے میں والہانہ دیکھتا تھا

یہ دن بھی ہیں تجھے میں دیکھتا ہوں بے بسی سے

ابھی عرفانؔ آنکھوں کو بہت کچھ دیکھنا ہے

تمہیں بے رنگ کیوں لگنے لگا ہے سب ابھی سے

Facebook Comments Box

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.

Calendar

April 2024
M T W T F S S
1234567
891011121314
15161718192021
22232425262728
2930