مداوا نہیں کوئی ۔۔۔ خالد قیوم تنولی

مداوا نہیں کوئی

خالد قیوم تنولی

سرما کے دن تھے۔ ایبٹ آباد کی گزرگاہوں پر اور باغوں اور جنگلوں میں زرد پتے کھنکھنانے لگےتھے۔ شامیں اور صبحیں تُند خنکی میں سانس لینے لگی تھیں۔

اُنہی شاموں میں سے ایک شام میں ہم تین دوست کینٹ بازار کے ایک خاموش ریستوران میں شیشے کی دیوار کے پاس کرسیوں پر براجمان ضیائی مارشل لاء ‛ نصابی موضوعات اور مستقبل کے امکانات پر باہم الجھ رہے تھے۔ پروفیسر حبیب جو کہنے کو تو ہمارے استاد مگر دراصل بے تکلف یار تھے۔ نہایت خوبرو تھے۔ بن پیئے کے گلابی ڈوروں سے بھری آنکھیں۔ موتیوں جیسے دانت جو ان کی مسکراہٹ کو آفت اور قہقہے کو قیامت بنادیا کرتے۔ وحید مراد ان کا ہو بہو عکس تھا۔ گلیات کی برفانی چوٹیوں پر سے ان کی نظر پلٹی تو مسکراتی آنکھوں سے انھوں نے شمروز اور مجھ سے کہا : “لڑکو ! یقیناً تم نے کبھی محبت نہیں کی ہو گی۔ تو پھر آج سے ہی ٹھان لو۔ محبت کیے بغیر مرجانے سے بڑی بدقسمتی اور کوئی نہیں۔”

میں ہنس پڑا تو انھوں نے بناوٹی خفگی کے ساتھ اپنی انگشتِ شہادت سے میری چھاتی میں ٹہوکا دیتے ہوئے پوچھا : ” ہنس کیوں رہے ہو ‛ حکمت؟”

میں نے کہا : “میرے حبیب ! محبت امیروں کی بازی اور ہم ٹھہرے کوزہ فروش ۔۔۔ ہم اس عیاشی کے کہاں متحمل ہو سکتے ہیں۔”

“ابے او ارشمیدس کے دُور پرے کے نواسے‛ تو اپنے آپ سےآگاہ ہی نہیں ھے۔ محبت میں اجر نہیں مانگا کرتے۔ ساہوکار مت بنو۔”

فیروز بولا : “گرو جی ! کوئی گُر تو دسو ‛ یہ نہ ہو کچی نیند سے جاگیں اور مارے جائیں۔”

پروفیسر حبیب نے اپنی گردن کے گرد لپٹے مفلر کو ذرا ڈھیلا کیا ‛ سگریٹ کو راکھدان میں بجھایا اور گویا ہوئے : “ہر عمل کا دار و مدار نیت پر ہے۔ نیت تو کرو تاتاریو۔”

فیروز نے سدھارتھی دھیان کی اداکاری کی‛ پھر آنکھیں کھول کر کہا : “لو جی ‛ ہوگئی نیت۔”

باہر شام ‛ رات سے بغل گیر ہو چلی تھی۔ ہم ہنستے ہوئے اٹھے۔ سر حبیب نے بل ادا کیا۔ باہر نکلے تو زمستانی ہواؤں نے مزاج ہی تو پوچھ لیا۔ ہم کینٹ روڈ پر چلتے ہوئے بڑی شاہراہ پر پہنچے۔ سر حبیب کو رخصت کیا۔ فیروز نے ملک پورہ جانا تھا اور مجھے کالج ہاسٹل۔ لہذا میں نے سڑک عبور مگر سامنے وکٹورین طرز کے گرجے کی بغلی گلی کو چھوڑ کر تاج محل سینما کا رخ کر لیا کیونکہ وہاں سے تانگہ مل سکتا تھا۔ سینما کے صدر دروازے سے متصل ایک کھوکھے سے ایمبیسی (جونیئر) کی ڈبیا لی۔ دکاندار سے تین برس کی شناسائی بلکہ گالم گلوچ والی بے تکلفی تھی۔ تاج محل کی رعایت سے میں اسے شاہجہان کے نام سے مخاطب کرتا تھا۔ طبیعت بھی اس کی شاہوں والی تھی۔ میں اس کا دیرینہ مقروض تھا۔ سگریٹ سلگا اور ایک ملنگی سوٹا لگا کر مڑا تو کسی سے ٹکرا گیا۔ دونوں گرتے گرتے بچے۔ سنبھلا تو دیکھا ‛ وہ کوچہ گرد مغنیہ تھی۔ اس حادثاتی ٹکراؤ میں سلگتی سگریٹ اس کے ہاتھ کی پشت پر بُجھ کر ٹوٹ چکی تھی۔ اس نے پھونکوں سے متاثرہ مقام کو ٹھنڈا کرنے کی اپنی سی کوشش کی ‛ پھر دہکتے رخسار پر ڈھلک چکے ننھے سے آنسو کو سگریٹ سے ڈسیے ہاتھ کی پشت سے رگڑ کر بولی : “کوئی گل نئیں۔”

“نہ جی نہ گل تو بہت بڑی ہے۔ ہتھ سڑا ہے آپ کا۔” میں نے اس کا سانولا سلونا‛ صحت مند اور نمکین سا ہاتھ تھاما اور سگریٹ سے جھلسی ہوئی جگہ پر پلکوں سے بوسہ دیا۔

اس سے قبل اتنی فراخ آنکھیں جن میں گلیات کے جنگلوں کے عمیق اسرار ہوں‛ پہلے کبھی نہ دیکھی تھیں۔ وہ آریا اور دراوڑ کا امتزاج تھی۔ شرمیلی سی مسکراہٹ جیسے مِیراجانی کی برفانی چوٹی پر سورج کی کرنیں منعکس ہو رہی ہوں۔ پہناوا میلا تھا مگر یہ اس کے پیشے کا تقاضا تھا ورنہ ستھرے لباس کو خیرات کب ملتی ہے۔

اس نے کےٹو سگریٹ کی تین ڈبیاں ‛چھٹانک بھر کترا ہوا چھالیہ اور پان کے پانچ پتوں کا آرڈر کیا تو شاہجہان نے بہ سرعت عمل کیا اور لفافہ اس کی طرف بڑھاتے ہوئے مجھ سے پوچھا : “لکھ دوں جناب کے حساب میں؟”

میں نے بھی حاتم طائی کی سی شان کے ساتھ اثبات میں سر ہلادیا لیکن دل ہی دل میں شاہجہان کے درجات بلند ضرور کیے۔ اسی اثناء میں راجے کا تانگہ رکا ‛ آواز آئی : “خان جی ‛ جُلسو یا کَھلسو؟”

“جُلساں یارا جُلساں۔”

ابھی پائے دان پر قدم دھرا ہی تھا کہ سنا : “میں بھی جَلساں پر الیاسی تک۔”

“آؤ ناں بسم اللہ ۔۔۔بے بے صدقے۔” راجا چہکا۔

گھوڑا دلکی چال چلا تو لگا جیسے اپنے سموں سے شب کی نیم تاریکی میں دھرتی کے صفحے پر محبت کی کوئی نظم ٹائپ کر رہا ہو۔ وہ میرے پہلو میں بیٹھی تھی اور اس کی خوبصورت سے ڈھولکی اس کی گود میں۔

“کیا کچھ گا لیتی ہو؟”

“سب کچھ ؟”

“وااااہ۔ ۔ ۔ شاواشے۔ نام؟”

“گیزاں۔”

“ہائے ۔۔۔ سوہنا ناں اے۔ میں حکمت ہوں۔ پڑھتا ہوں۔ کالج میں۔ کہاں رہتی ہو؟”

“اسیں جوگی آں۔ کوئی ٹھکانا نئیں۔ آج اِدھر تے کل کِدھر اور۔”

“خان جی ‛ لہسو یا چکر لگوا آؤں؟”راجا نے پوچھا تو میں نے کہا۔”روک او یار۔ اس ٹھنڈ میں چکر شکر کا کوئی ارادہ نہیں۔”

تانگہ رکا۔ میں اترا۔ اور راجا سے کہا: “لالے ! کرایہ لکھ دینا میرے حساب میں۔”

“ہَلا جی ہَلا۔ گل ای کوئی نئیں۔”

“چنگا جی‛ اللہ دے حوالے۔ فیر ملساں۔”

تانگہ چل پڑا۔ ایک ہاتھ دھند میں اوجھل ہونے تک لہراتا رہا۔

دوسرے دن جب میں سر مستجاب سے شیکسپیئر کے “میکبتھ” پر بحثو بحثی ہو رہا تھا تو قریب سے گزرتے سر حبیب کو آواز دے کر روکا اور آنکھ دبا کر کہا : “مرشد ! بُوٹا لگ گیا ہے۔”

سر حبیب نے قہقہہ اچھالا اور منکسرانہ ادا سے سینے پر ہاتھ رکھ کر بولے : “فقیراں دی دعا اے بچہ۔ شام کو ملتے ہیں۔” اور ہنستے ہوئے آگے بڑھ گئے۔

شام کو کمپنی باغ میں شمروز اور سر حبیب کے حضور گزشتہ شب میں گزرے اس جذباتی “سانحے” کی مفصل رپورتاژ پیش کی اور کہا: “گروجی ‛ دل تو گیا اُس ڈھولکی کے ساتھ۔ اب بہتر ہے کہ آپ دونوں میری وصیت تحریر فرما لیں۔ میں بھی بس جانے ہی والا ہوں‛ صبح گیا یا شام گیا۔”

“ابے چپ کر ہرکولیس کی اولاد‛ خبردار ایسی کوئی بکواس فرمائی تو‛ بھوکے شیروں کے آگے پھنکوا دوں گا۔” شمروز نے بپھر کر کہا تو سرحبیب مندھی آنکھیں پوری کھول کر بولے : “وصیت کی قلمبندی زیادہ افضل ہے۔ کم ظرفوں کو محبت اور عزت کبھی راس نہیں آتی۔”

اس کے بعد دونوں تادیر میری بَھد اڑاتے رہے۔

میں نے بھی پختہ تہیہ کیا کہ آئندہ کیفیت کے لفافے کو سرِعام نہیں کھولوں گا۔

نگاہِ منتظر کب تک آئنہ بندی کرتی۔ کچھ ہی دن گزرے تھے کہ دشتِ غم میں یار کا محمل ٹھہرا۔ وہ اس طرح کہ ایک دن بانڈہ دلزاک کے رستم نے گھر پر مدعو کیا کیونکہ اس کی بے بے جی کو گھیا کدو کی کڑھی‛ سنجی کے ساگ‛ مکئی کی روٹی اور تمبر و اناردانہ و پودنے کی چٹنی کا اہتمام کرنا تھا۔۔۔۔۔ اور رستم کی بےبے جی کو اپنے جگرگوشے کے جگری سنگی کی خوش خوراکی کا بخوبی علم تھا۔ ہم دونوں چھت پر دھوپ سینک رہے تھے کہ دفعتاً نیچے گلی میں نِمی نِمی ڈھولکی کی تھاپ کے ساتھ “میں چوری چوری تیرے نال لا لئیاں اکھاں وے” کے بول سنے تو بے اختیار نیچے گلی میں جھانکا۔ وہی کوچہ گرد مغنیہ تھی۔

میں اگلی چند ساعتوں میں اس کے مقابل جا کھڑا ہوا۔ اس کے ہاتھ رکے‛ پھر گیت تھما ۔۔۔ گویا نظامِ کائنات ٹھہر گیا ہو۔

نہ اس نے کچھ پوچھا نہ میں کچھ بولا۔ بس اس کا ہاتھ تھاما اور تھوڑی دیر بعد ہم دونوں نیچے بڑی شاہراہ پر تھے۔ اگرچہ اس کے دھندے میں حرج ہو رہا تھا مگر ہم سوزوکی میں بیٹھے اور ٹھیک نصف گھنٹے بعد شملہ پہاڑی جا پہنچے۔

چڑھائی کے بعد جب ذرا ہموار مقام آیا تو ہم دونوں ہی ہانپ رہے تھے۔ جانے کیا سوچ کر وہ ہنسنے لگی اور بے طرح ہنستی ہی چلی گئی۔

کہنے لگی : “دنیا بھی گول دائرہ ہے۔ جس سے بچھڑو ‛ وہ دوبارہ ملتا ضرور ہے۔”

میں نے اسے متاثر کرنے کو جھوٹ بولا : “میں نے نذر مانی تھی ۔۔۔ “

اس نے حیرت سے میری طرف دیکھا تو میں نے کہا : “تم سے دوبارہ ملنے کی ۔۔۔”

اس پر پھر ہنسی کا دورہ پڑا۔ بولی: “اور وہ نذر بھی تم اپنے حساب میں لکھواؤ گے یا نقد ادا کرو گے؟”

میں یہ سن کر قدرے جھینپ سا گیا مگر ڈھیٹ پن میں کون مجھ سے آگے نکل سکتا تھا۔

“زیادہ لال مت ہو‛ ایویں ای کہہ رہی ہوں۔” اس نے میرے گال پر ہلکے سے چٹکی لی ‛ کھنکھنائی :”یہ جو اس میں چٹو ( ڈمپل) سا بنتا ہے‛ اس نے مجھے کہیں کا نہیں چھوڑا۔ ڈرتی ہوں تمھیں میری نظر نہ لگ جائے۔ ماں کہتی ہے کہ میں نظر اور زبان کی بھہیڑی ہوں۔”

میں نے بناوٹی گھبراہٹ سے کہا : “ایسے موقع پر ماشاء اللہ کہہ دیا کرو۔ تم تو میلہ گھومنی ہو‛ لیکن میں نے ابھی دیکھا ہی کیا ہے۔ سوائے کالج کے۔”

وہ چپ سی ہو گئی تو میں نے کہا : “دیکھو ! اگر تمھیں اپنی دیہاڑی ضائع ہونے کا غم ہے‛ تو اسے میرے حساب میں ڈال دو مگر اس طرح یتیمنی بن کر نہ بیٹھو۔ کوئی گیت سناؤ۔ تمہاری خاطر آج میں نے دو دل دُکھائے ہیں۔ بھوکا اٹھ کے بھاگ آیا ہوں۔”

اور پھر ہم نے دنیا بھر کی باتیں کیں۔ میں نے جب کہا : “کبھی تمہارا جوگیوں والا ڈیرہ دیکھوں گا۔” تو وہ یک دم سنجیدہ ہو گئی۔ بولی : “نہ سوہنا‛ وہ تمہارے قابل نہیں۔ ہم پکھی واسیوں کے پاس ہوتا ہی کیا ہے۔ کچھ بھی تو نہیں۔ تم وہاں نہ آنا۔ خوامخواہ کی دشمنی پڑ جائے گی۔ ابا میرا افیمچی ہے۔ برادری کا اکھڑ چوہدری بھی۔ اسے اپنا ہوش نہیں ہوتا۔ ماں غصے کی تیز۔ سمجھو جَلّٹی انگارہ مرچ۔ تم پڑھو۔ یہی تم پہ سجتا ہے۔ پریت کا کیا ہے۔ نہ نیند کی محتاج اور نہ جاگ کی۔ وگدی ندی دا پانی۔”

واپسی پر وہ اپر ملکپورہ کی طرف نکل گئی اور میں ہاسٹل چلا آیا۔ اگلی ملاقات کا وقت اور مقام طے ہو چکا تھا اور اس کے بعد سرما کی تعطیلات شروع ہونی تھیں۔

اگلے دن رستم ملا تو من من بھر کی گالیاں دیں اور بتایا : “بے بے بہت خفا ہے۔ کہہ رہی تھی کنجر نے اچھا نہیں کیا۔”

میں نے میدان سے سوکھی گھاس کا ایک تنکا اٹھایا اور اس کے سر پر رکھ کر پوچھا : “سچ بتا ‛ کنجر ہی کہا تھا؟”

ہنس پڑا : “نہیں ‛ لیکن خفا تو ہے نا۔ تو چلا کہاں گیا تھا؟”

میں نے وہیں کھڑے کھڑے بے بے جی کے نام ایک معذرت خواہانہ رقعہ گھسیٹا ‛ تہ کر کے رستم کو دیا اور کہا : “کھول کر دیکھنا مت ورنہ پتھر کے ہو جاؤ گے‛ صرف بے بے جی کو پڑھ کر سنانا ہے۔ وہ تیری ہی نہیں میری بھی ماں ھے‛ اور مائیں کبھی دل سے خفا نہیں ہوتیں۔ ایویں ای شو شا ہوتا ہے بس۔ دوبارہ دعوت کرنا۔ اس بار نہیں بھاگوں گا۔”

گیزاں سے اگلی ملاقات تک زندگی جیسے ڈگر سے اتر گئی۔ گریۂ یعقوب و صبرِ ایوب کا سا عالم۔ نہ انگ چیناں نہ سکھ نیناں۔ کتاب کھولتا تو کانوں میں ڈھولکی کی تھاپ گونجنے لگتی۔ کلاس میں پروفیسر حضرات کے لیکچرز بخارات ثابت ہوتے۔ صنم آشنائی ہر معمول پر حاوی ہو گئی۔ سگریٹ نوشی کی رفتار و مقدار بڑھ گئی۔ شاہجہانی رجسٹر میں حساب طول پکڑتا گیا۔ حالانکہ محض تین دن کی ہی تو بات تھی۔

ملاقات ہوئی تو وہ بہت دیر مجھے بغور دیکھے گئی۔ پھر میرے داہنے گال پر ہلکی سی چپیڑ مار کر روہانسی ہو گئی : “نِچڑ کیوں گئے ہو۔ تمہارے ان گالوں کی وہ چکا چوند کہاں گئی۔ یہ کون سا ڈھنگ ھے جیون کرنے کا۔ وے حکمت ! اک گل پکی پکی یاد رکھ ‛ ریل کی پٹڑیاں دیکھی ہیں کبھی؟ کبھی نہیں ملتیں‛ پر رہتی ساتھ ساتھ ہیں۔ تیرا میرا جوڑ نئیں ہو سکدا۔ تُوں مقیم ‛ میں مسافر۔ ہاں یہ ما یہاوی پریت مک جائے ‛ یہ بھی نئیں ہو سکدا۔ زندگی چار دن دا میلہ اے جانی‛ کھا پی موج منا پر یہ رانڈ (بیوہ) والی صورت نہ بنا۔”

میں نے بمشکل تھوک نگل کر حلق کو تَر کیا ‛ بولا تو لگا زبان دانتوں تلے آ چکی ہو : “باقی سب ٹھیک ہے مگر یہ ریل کی پٹڑیاں ‛ کیا ہم ریل کی پٹڑیاں ہیں۔ نہیں۔۔۔ ہم ریل کی پٹڑیاں نہیں ہیں۔”

اس نے اسی ہاتھ کی پشت سے ڈھلکے ہوئے اشک پونچھے جس پر اب بھی سگریٹ دغنے کا نشان خوب واضح تھا۔ بولی : “کچھ سچ آک کی بوٹی کی طرح کڑوے ہوتے ہیں۔ نہ اُگلے جاتے ہیں نہ نگلے۔ چھوڑ ‛ جو کہا اسے مان ‛ اسی میں فیدہ ہے تیرا بھی میرا بھی۔ تیری ماں جیوندی رہوے ‛ اس تتڑی کے بھی سفنے ہوں گے۔”

وہ میرے لیے پنجیری لائی تھی اور میں نے اسے چاندی کی پازیبیں دیں۔ ہم لیڈی گارڈن میں چیڑھ کے ایک پیڑ تلے بیٹھے تھے۔ میں مٹھی بھر پنجیری پھانک کر اس کے پاؤں میں پازیب باندھنے لگا تو جیسے بارش کے بعد دھوپ نکل آئی ہو ‛ وہی ملاقاتِ رفتہ والی شناسا ہنسی۔ پوچھا : “یہ بھی حساب میں لکھوا کے تو نہیں لائے ؟”

میں بھی ہنس پڑا : “ہاں ۔۔۔ یہی سمجھ لو ‛ سارا شہر ہی اپنا واقف ہے۔”

تیسری ملاقات میں عجب تماشا ہوا۔ میں نے کچھ اور ہی ٹھان رکھی تھی۔ شیو کئی دن سے نہیں بنوائی تھی۔ سر کے بالوں کو شیمپو کرنا چھوڑ رکھا تھا۔ نہانے سے بھی گریز تھا۔ محلہ کیہال میں مراد جدون کی آپا جو ریڈیو پر سکرپٹ رائٹر اور آرٹسٹ تھیں ‛ ان سے گزارش کی : “کالج میں ایک ڈرامے کی ریہرسل ہے۔ ٹاسک آپ کے اس برخوردار بھائی کو ملا ہے۔ کردار ایک فقیر کا ہے۔ فقیر بھی وہ جو عشق کے شدید تپِ محرکہ میں مبتلا ہے۔ لِلہ ‛ گیٹ اپ بنا دیجیے۔”

آپا بہت ہنسیں۔ سارے گھر کو بلا لیا اور اعلان کیا : “اب نوبت یہاں تک آ پہنچی ہے۔۔۔”

خیر بہروپ کے لیے مراد کے کپڑوں کا ایک پرانا جوڑا ڈھونڈا گیا‛ چہرے ‛ گردن اور ہاتھوں پر کچھ مرکبات کی ملمع کاری کی گئی جس سے اصل جلد گہری سانولی دِکھنے لگی۔ ایک رخسار پر نمایاں سا مصنوعی مسّا چھپ گیا۔ گلے میں مالائیں اور کلائیوں میں آہنی کڑے پڑ گئے۔ ہاتھ میں ایلومینیم کا ٹھوٹھا پکڑا دیا گیا۔ آئنے میں اپنا حلیہ دیکھا تو خود کو پہچان نہ سکا۔ نسیم رضا کی نقل میں “اے دل کسی یاد میں ‛ ہوتا ہے بے قرار کیوں” گایا تو آپا نے ‛سب ٹھیک‛ کا اشارہ کیا اور شاباش دی۔ تالیاں گونجیں۔ مراد نے اپنے ابّا کے ہنڈا ففٹی پر بٹھایا اور مقررہ وقت سے کچھ پہلے میں نے کمپنی باغ کے پہلو میں لنڈے والی گلی کے باہر پوزیشن سنبھال لی۔

گیزاں آئی اور میری تلاش میں ادھر ادھر دیکھنے لگی۔ میں اس کی بے چینی اور اپنے انتظار کی کسک کا لطف لیتا رہا۔ یہ دورانیہ دس پندرہ منٹ کو محیط تھا اور جب مجھے محسوس ہوا کہ وہ تنگ آ کر کہیں اور نکلنے کو ہے تو میں اس کے پاس گیا اور آواز کو بگاڑ کر بولا : “سوہنیو ! اگر وہ نہیں آیا تو یہ خادم حاضر ہے‛ حکم فرماؤ۔” لیکن برا ہو میری بے اختیار ہنسی کا جس نے موقع پر ہی میرا بھانڈا پھوڑ دیا۔ وہ حیرت سے مجھے دیکھے گئی۔ سر سے پاؤں تک بغور جائزہ لے چکی تو اس کی ہنسی کے کتے بھی فیل ہو گئے۔ پوچھا : “حکمت! یہ واقعی تم ہو ۔۔۔ کمینے؟”

“جی جناب ‛ تساں دا خادم۔” میں نے سر تسلیمِ خَم کیا۔ “کب سے کھڑا دیکھ رہا ہوں۔ نہیں پہچان سکی نا تم ۔”

“اللہ دی قسمے‛ بالکل بھی نہیں۔ لیکن یہ تم نے کیوں کیا ایسا؟”

“بتاتا ہوں‛ چلو یہاں سے‛ آج کی دیہاڑی تیرے نام ۔۔۔ “

ہم دونوں ساتھ ساتھ چلنے لگے۔ عدالت سے فوارہ چوک اور وہاں سے لاری اڈہ اور پھر سلہڈاں کی طرف نکل گئے۔ راہ میں ایک جگہ رک کر میں نے اس سے ڈھولکی لے لی اور اس فن میں مہارت کا ثبوت بھی دیا۔

میں نے کہا : “بات کوئی خاص نہیں‛ بس میں دیکھنا چاہتا ہوں کہ بندے کی ‘میں‛ کیسے مرتی ہے۔ اور دوسری بات ‛ پڑھائی مکمل ہونے کے بعد نوکری نہ ملی تو ہو سکتا ہے یہی شعبہ اختیار کر لوں۔ تم سکھاتی رہنا۔ محنت مجھ پر چھوڑ دو۔”

اس دن ہم کئی گلیاں پھرے۔ در در کھٹکھٹایا اور گا گا کر خیرات مانگی۔ وہ مشترکہ کوشش خوب رنگ لائی۔ بڑی بِکری ہوئی۔ میں نے جوان لڑکیوں کو ان کے خوابوں کے شہزادوں کی ‛ زیادہ عمر والیوں کو نرینہ اولاد کی اور بوڑھوں کو حج و عمرہ کی سعادت کی گلوگیر لہجے میں وہ دعائیں دیں کہ اگر وہ پتھر کے مجسمے بھی ہوتے تو موم بن کر پگھل جاتے۔ جس دہلیز پہ بیٹھے ‛ کچھ نہ کچھ لے کر ہی اٹھے۔ ایک مائی نے ہمیں کھانا دیا اور بیٹھنے کو گھر کے صحن میں کرسیاں۔۔۔ اور جب ہم کھا رہے تھے تو اس نے التجا کی : “بچیو ! تم اللہ والے ہو‛ میرا پتر ایک مدت سے قتل کے جھوٹے مقدمے میں بند ہے‛ پھانسی کی سزا بول گئی ہے۔ وہ اُکا بے خطا ہے‛ دعا کرو ‛ کوئی کرامت ہو‛ میرا اک ای پتر ہے۔” اور ماں رونے لگی۔

میری بھوک مرگئی۔ حلق میں نمک سا گھل گیا۔ نوالہ ہاتھ سے چھوٹا اور دست ہائے دعا اٹھ گئے۔ ایسی رقت طاری ہوئی کہ رخسار پر بنا مسّا دُھل گیا۔

عصر ڈھلے ہم واپس شہر آ گئے‛ تھکن سے چُور مگر سرشار روح کے ساتھ۔ وقت رخصت گیزاں نے مجھے سینے سے لگا لیا۔ پیشانی چومی اور بولی : “مان گئی استاد‛ جنم جنم کے فنکار ہو۔۔۔ لیکن یہ پہلی اور آخری بار سمجھو‛… ‛میں‛ تو مر جاتی ہے لیکن وقار بھی چلا جاتا ہے۔ ہمارا تو یہ جدی پشتی کسب ہے مگر تم ‛ یاد رکھنا ‛ بھوکے مرجانا ‛ کبھی ہاتھ نہ پھیلانا۔ حکمت ! وعدہ کرو۔”

میں نے وعدہ کیا اور کرتے کی جیبیں خالی کیں۔ دن بھر کی “آمدن” گیزاں کو زبردستی تھمائی۔ حالانکہ وہ اصرار کرتی رہی کہ اپنا کوئی نہ کوئی حساب ہی چکا دو۔

اس رات میں نے ایک بار پھر خوب گڑگڑا کر دعا مانگی کہ اس ماں کا قیدی بیٹا اگر واقعی بے گناہ ہے تو رہا ہو جائے۔

سردیوں کی چھٹیاں ہوئیں۔ کالج بند ہو گیا۔ میں بڑے بھائی کے ہاں پشاور چلا گیا۔ وہاں نئے دوست بن گئے اور ہم سوات و چترال کی سیر کو نکل گئے۔ گیزاں کا خیال آتا مگر نئے ہنگاموں اور رعنائیوں کے جھمیلے میں کھو جاتا۔

ایک دن صبح ہوٹل کی مختصر سی لابی میں اخبار کی شہ سرخی پر نظر پڑی :

“ایبٹ آباد کی نواحی بستی میں خانہ بدوشوں کی جھگیاں جل کر راکھ ؛ کوئی بھی زندہ نہیں بچا”

دل پر جیسے زور کا ایک گھونسا پڑا۔ گیزاں کی صورت نگاہوں میں گھوم گئی۔ دل اچاٹ سا ہو گیا۔ میں ساتھیوں کو طبیعت کی خرابی کا بتا کر واپس پشاور آ گیا۔

باقی دن زندگی سے بیزاری میں کٹے۔ حتیٰ کہ تعطیلات ختم ہوگئیں۔ بہار آ چکی تھی۔ میں ہاسٹل پہنچ گیا۔ نارمل ہونے میں دیر تو لگی مگر میری آؤٹ ڈور سرگرمیاں سکڑ گئیں۔ شمروز ‛ مراد ‛ رستم اور سر حبیب سے ہاسٹل میں ہی محفلیں ہونے لگیں جو سالانہ امتحانات کے قریب آتے ہی ختم ہو گئیں۔

ایک شام کینٹ بازار سے کچھ ضروری خریداری کے بعد شاہجہان کے کھوکھے پر پہنچا اور اسے اپنا گزشتہ کھاتے کا حساب بےباق کرنے کو کہا۔ کل ستاون روپے بنے جو میں نے گالیوں کے سود سمیت ادا کر دیے۔ سگریٹ سلگائی اور ایک طویل کش لگا کر پلٹا تو کسی سے ٹکراتے ٹکراتے بچا۔ نظر اٹھی تو خود کو گیزاں کے مقابل پایا۔ تعجب‛ خوشی ‛ تذبذب اور گبھراہٹ نے یلغار کی۔۔۔ اور میں نے لکنت زدہ زبان سے پوچھا : “تتت۔۔۔تم ۔۔۔زندہ ہو؟”

اس نے بالکل روکھے سے انداز میں جواب دیا : “دیکھ نہیں رہے‛ اندھے ہو گئے ہو کیا۔”

“اور وہ آگ ‛ وہ اخبار کی خبر ۔۔۔ کچھ بھی نہیں بچا‛ کیا وہ جھوٹ تھا سب؟”

“سچ تھا‛ مگر جھگیاں اور تھیں۔” اس کا لہجہ ہنوز سرد تھا۔

“شکر ہے‛ میں سمجھا کہ ۔۔۔”

“یہی کہ گیزاں مر گئی ہو گی۔ تم نے کون سی خبر لی۔ سمجھ لیا مر گئی‛ گل مک گئی۔ خس کم جہان پاک۔”

“نہیں‛ ہر گز نہیں‛ ایسا نہیں تھا وہ دراصل ۔۔۔”

چھوڑ حکمت‛ جانے دے۔ کوئی بہانہ مت بنا۔ میں نے کوئی صفائی نہیں مانگی تم سے۔”

“اوہو‛ سمجھ ہی نہیں رہی ہو‛ گل تو پوری سن لو پہلے‛ میں سوات میں تھا‛ یہاں سے بہت دور۔ اور پھر وہ خبر ہی کچھ ایسی تھی کہ ۔۔۔”

“تُو جہنم میں بھی ہوتا تو تجھے آنا چاہیے تھا حکمت! یہ کیسی محبت ہے جو مرتے کا منہ دیکھے نہ جنازے کو کندھا دے‛ ایک لحاظ سے تو میں ہی مر ہی گئی تھی نا ‛ پر چھوڑ حکمت !”

“جانی ‛ خبر کے مطابق ۔۔۔”

“بھاڑ میں گئی خبر ۔۔۔” وہ چلا اٹھی۔ “میں مر گئی اور تُو خبر کو لے کے بیٹھا رہا۔ تو میری قبر پہ گیا؟ ایک بار بھی گیا؟ ان جلی ہوئی جھگیوں کی جگہ دیکھنے گیا؟ جہاں ککھ بھی نہیں بچا۔ کب سے تو واپس آیا ہوا ہے۔ میں مر گئی اور تو میری قبر پہ ابھی تک نہیں گیا؟ گیزاں پہلے نہیں مری تھی پر ہُن مر گئی اے۔” اور یہ کہتی ہوئی وہ تیزی میں آگے بڑھ گئی۔

مجھے محسوس ہوا کہ جیسے میرا نچلا دھڑ بے جان ہو گیا ہو۔

Facebook Comments Box

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.

Calendar

March 2024
M T W T F S S
 123
45678910
11121314151617
18192021222324
25262728293031