پُل صراط ۔۔۔ فرحین چودھری

پل صراط

فرحین چودھری

شام کا اندھیرا  دور دور تک اپنے پر پھیلایے کھڑا تھا۔ شہر خموشاں کی صاف ستھری مگر اندھیری سڑکوں پر اکا دکا لاییٹس کے جگنو چمک رہے تھے۔ آج ۱فس میں اہم میٹنگ کے بعد دن بھر کے تنے ہویے اعصاب اب ڈھیلے پڑ رہے تھے ، پرسکون ہو رہے تھے۔

 پٹھانے خان  ۔۔۔’’ مینڈا عشق وی توں  ۔۔۔۔‘‘ بڑے جذ ب کے ساتھ گا رہا تھا اور میری گاڑی روانی کے ساتھ پٹھانے خان کی آواز کا ساتھ دیتی ہویی کسی سچے سر کی مانند ہوا میں تیرتی معلوم ہو رہی تھی ۔ ۔۔ اچانک مجھے شبہ ہوا سڑک کنارے کسی خاتون نے رکنے کا اشارہ دیا ہے۔ میں نےہلکی سی بریک لگا کر گاڑی ریورس کی ۔ میرا اندازہ درست نکلا ۔ کالج یونینفارم میں ملبوس ایک لڑکی کا ہاتھ ہوا میں معلق تھا ۔ جو گاڑی کو ریورس ہوتا دیکھ کر خود بخود پہلو سے آن لگا ۔ ۔

لڑکی نے ایک لحظہ بھی دیر کیے بغیر گاڑی کا دروازہ کھولا اور دھم سےاگلی سیٹ پر بیٹھ گیی ۔۔

کہاں جانا ہے آپ کو۔ ۔؟‘‘

میری آواز سن کر اس نے چونک کر میری جانب دیکھا ۔۔ ۔انتہایی مایوسی کا تاثر ایک لمحہ کو اس کی آنکھوں میں ابھرا اور ڈوب گیا، ’’ وہ ، میں کہیں نہیں َ۔۔‘‘

وہ گڑبڑا سی گیی

’’ کیا مطلب ۔۔؟‘‘ اب چونکنے کی باری میری تھی

اس نے ایک گہری سانس لے کر جیسے خود کو سنبھالا دیا اور بولی ،’’ میں ایک طوائف ہوں  کال گرل کہہ لیں ‘‘

اس وقت اگر کوئی توپ بھی میرے کان کے قریب پھٹتی تو شایید اتنا بڑا دھماکہ نہ ہوتا۔ ۔۔ ایک لمبی خاموشی ہمارے گرد چھا گیی ۔ ۔آتش فشاں کے پھٹنے کے بعد کی خاموشی ! میرے بواٰے کٹ ہییر سٹایل اور گیٹ اپ کی وجہ سے شام کے دھندلکے میں وہ مجھے مرسیڈیذ میں سوار کوئی بڑی اسامی سمجھ  بیٹھی تھی ۔ ۔میں نے سر گھما کر اس کا جائزہ لیا ۔۔ ۔ سمارٹ بدن پر کالج یونیفارم، پاوں میں جاگرز ۔ ۔ ۔ میک اپ سے مبرا وہ سراپا کسی طور بھی مشکوک نہیں لگ رہا تھا ۔ ۔

’’  are  you sure’’?

میں نے چیختے چلاتے سناٹے سے گھبرا کر پوچھا ، جواب میں  وہ ہنس پڑی ۔ ۔ایک بے ضرر سی ہنسی ۔ ۔نہیں  یہ ہنسی کسی گھر اجاڑنے والی کی تو نہیں ہو سکتی ۔ ۔۔

میرے تصور میں وہ مکروہ چہرے اور مکروہ ہنسی گھوم گیی جس کا امیج ہم عورتوں کے ذہنوں میں پیدا ہوتے ہی بٹھا دیا جاتا ہے ۔۔۔ایک چڑیل کا امیج ۔ ۔جو انسانوں کی خوشیوں اور عورتوں کے سکھ چین کی دشمن ہوا کرتی ہیں ۔۔

’’ کہاں رہتی ہو ‘‘؟

’’ شرفا کی بستی میں ‘‘ لہجہ کاٹ دار تھا

’’ لیکن تمہارا یہ لباس ۔۔۔۔۔۔‘‘   میں نے جملہ ادھورا چھوڑ دیا

’’ شک سے بالاتر کچھ مردوں کی نفسیات کے عین مطابق۔۔‘‘ اب کی بار وہ پکے کاروباری انداز میں بولی

میرے ذہن میں معمہ بیدار ہو چکا تھا

’’ تمہارے والد ہیں ؟ کیا کرتے ہیں ؟‘‘  میں اب تک اسے کوئی بگڑی ہویی باغی لڑکی سمجھ رہی تھی جو کسی انوکھے پن کی تلاش میں ، منفرد بننے کے چکر میں احمقانہ حرکتیں  کرتی پھر رہی ہو

’’ میرا باپ میری کمائی کھاتا ہے ‘‘ پر سکون لہجہ  مجھے بے چین  کر گیا

’’ تو پھر تم نے مجھے کیوں روکا۔۔۔‘‘ میں نے پوچھا

’’ غلط فہمی کہہ لیں ‘‘ اس کے خوبصورت  چہرے پر مسکراہٹ بکھر گیی

’’ اتار دوں  کہیں ‘‘؟ میں نے پوچھا

’’ نہیں  چلیں آج بزنس نہ سہی اپنی کسی شریف ہم جنس سے بھی کچھ باتیں ہو جاییں ‘‘ انداز بے باک۔ میرا اپنا بھی یہی  جی چاہ رہاتھا سو گاڑی آہستہ آہستہ چلتی رہی

’’ تم لوگوں کے تو اپنے علاقے اپنے ٹھکانے ہوتے ہیں نا ‘‘ انتہایی تجسس کے باوجود جانے کیوں میں اسے طوائف نہ کہ سکی۔

’’ ہاں تھے ، لیکن بے گھر ہو گئے تو شرفا کی بستیوں مین آن بسے ۔ ۔ویسے بھی اب کوئی خاص فرق رہا  تو نہیں ۔۔۔‘‘ وہ سفاکانہ انداز میں بولی

’’ کیا مطلب ‘‘؟  مجھے اتنے بھرپور وار کی توقع نہ تھی   وہ مسکرانے لگی

’’ آپ طوائف کسے کہتے ہیں ؟ وہی نا جو اپنے حسن اور نازو ادا کی قیمت وصول کرتی ہے ؟!  ان عورتوں کو کیا نام دیں گی جو بظاہر توشرفا کے طبقے سے ہیں لیکن محفلوں میں اپنے جسم کی نمایش کرتی ہیں اونچی سوساییٹی کے آداب کے نام پر غیر مردوں کی بانہوں میں جھولتی ہیں ،،بدلے میں باپ بھایی یا شوہر کو عہدے اور مراعات ملتی ہیں ؟ ‘‘

میرا دماغ سنسناہٹ سے بھر گیا میں  نے بمشکل اتنا ہی کہا ، ’’ پڑھی لکھی لگتی ہو ‘‘

’’ ظاہر ہے وقت کے ساتھ ساتھ ہمیں شریف زادیوں سے بھی مقابلہ کرنا پڑ گیا ہے نا   اب لوگ ہر چیز میں اے کلاس مانگتے  ہیں ۔ ۔کیا کریں پیٹ کا معاملہ جو ٹھہرا ‘‘

چہرے پر مسکراہٹ اور زہر میں بجھا لہجہ ، نہیں وہ جو کوئی بھی تھی عام عورت تھی نہ عام پیشہ ور

’’  لگتا ہے اپنے انداز حیات  سے تنگ ہو ۔ ۔کیوں نہیں شرافت کی زندگی کی جانب آ جاتیں ‘‘  مجھے اور کچھ نہ سوجھا تو گھسا پٹا فقرہ دہرا دیا

’’ ہا ہا ہا  کون دے گا مجھے عزت والی زندگی ؟ آپ کا بھائی، باپ یا پھر شوہر اگر ہے تو؟ جن کی اخلاقیات کا معیار ہر لحظہ بدلتا ہے ۔ ۔ گوری بیاہ کر لاییں گے تو اکڑ اکڑ کر چلیں گے چاہے ولدیت بھی اس کی مشکوک ہو  ہنہ  میڈل بنا کر گلے میں لٹکایے پھریں گے ‘‘ وہ تلخی سے بولی

’’ یہ تو بڑائی ہویی نا مردوں کی ‘‘ یونہی میں نے ایک جملہ اچھالا

’’ ہنہ  بڑائی ؟   تلخی نے اس کے چہرے کے نقوش بدل دیے ’’ یہ بڑائی اس وقت کہاں مر جاتی ہے جب اپنے معاشرے کی کسی کی لڑ کی کی معصوم سی لغزش جو کسی فون یا خط تک محدودو ہو ۔ ۔پھر تو ان کی غیرت کا جوش  ظلاق یا قتل سے نیچے ٹھنڈا نہیں ہوتا ‘‘

بات گو کڑوی مگر اتنی سچی تھی کہ مجھے اس پر بے اختیاراس لڑکی پر پیار آنے لگا ہم مہذب کلاس کی عورتوں میں تو اتنی جرات  بھی نہیں کہ اس سچ کا اقرار کر سکیں ہم تو ’’ سب اچھا ‘‘ سوچ کی خوش فہمیوں کے لحاف میں منہ چھپائے خوابوں سے دل بہلاتی رہتی ہیں  اور  ہمارے مرد نت نئی  تتلیوں کے رنگوں سے  کیونکہ  ہم اپنے کمفرٹ زون کو چھوڑنے سے ڈرتی ہیں  لیکن  میں یہ سب سوچ  کر رہ گئی  اور اچانک میرے منہ سے صرف اتنا  نکلا  ،

  ’’ کھانا کھاو گی ‘‘ ؟ وہ حیرت سے مجھے تکنے لگی پھر مطمین سی ہو کر بولی ، ’’ ہاں بھوک تو لگی ہے لیکن کسی ایسی اکیلی سی جگہ جہاں میرا کویی  کسٹمر  مجھے پہچان نہ لے ‘‘

’’ وہ کیوں ‘‘؟ میں نے حیان ہو کر پوچھا

’’ میری  وجہ سے آپ کی سبکی نہ ہو جایے ‘اس کی مسکراہٹ میں سچائی تھی

میرا جی چاہا میں اس پیاری سی لڑکی کو گلے سے لگا لوں ۔ اگراس نام نہاد بے داغ معاشرے کے بدنما داغ ایسے ہیں تو انہیں سینے پر سجانے میں کوئی حرج  نہیں  مگر اتنے فراخ سینے کہاں ہیں ؟

کھانے کے دوران اس کا ہر انداز شائستہ لگا ۔ جانے کیوں میرا جی چاہا میں اسے اس غلاظت سے باہر لے آوں کسی بھی طرح    ’’’  سنو تم پناہ چاہتی ہو تو میں تمہاری مدد کر سکتی ہوں ۔ اس غلاظت سے نکل آیو تمہارے سامنے پوری زندگی پڑی ہے ‘]

میں نے بے حد پیار سے اس کے ہاتھ پر اپنا ہاتھ رکھتے ہوئے کہا ،خلاف توقع اس نے اپنا ہاتھ کھینچ لیا اور تلخی سے بولی ’’بیگم صاحبہ اگر غلاظت کے یہ ڈرم جا بجا نہ دھرے ہوں تو آپ کے گھر کوڑے کرکٹ کا ڈھیر بن جاییں ۔ ۔۔بدبو اتنا تعفن  پیدا کردے گی کہ سانس لینا دشوار ہو جایے گا اور گند سڑکوں پر بہہ نکلے گا ۔ ۔دعاییں دیں ان کوڑے کرکٹ  کے ڈھیروں کو جو آپ کے گھروں اور نیتوں کی غلاظت کو اپنے اندر سمیٹ لیتے ہیں اورپھر سب پاک  صاف  ۔ ۔ ۔‘ مجھے لگا وہ میرے اور سماج کے چہرے پرطمانچے مار رہی ہے ایک کے بعد دوسرا  دوسرے کے بعد تیسرا ۔ ۔ ۔

اسقدر ذہین اور خوبصورت عورت سے کونسا مرد دامن بچا سکتا ہے ۔ ۔میں نے ٹھنڈے دل سے سوچا ، کم از کم یہ اپنی برادری کے ساتھ تو وفادار ہے  ۔۔ہم مہذب لوگ تو اپنے گھروں سے بھی بے وفاییاں کرتے ہیں  ۔۔تو پھر بہتر انسان کون ہے ؟ میں نے اپنے سوال سے خود ہی نظر چرا لی

’’ سنو میں تمہارے دکھ کو سمجھتی ہوں   بتاو میں کیا کر سکتی ہوں تمہارے لیے‘‘؟

میرے الفاظ میں خلوص تھا وہ جھاگ کی مانند بیٹھ گیی ، آنسو اس کی پلکوں پر لرزنے لگے ۔

’’ کس پر اعتبار کروں ؟ کیا سچ  ہے اور کیا جھوٹ ‘‘؟

’’ سچ یہ ہے کہ تم اس معاشرے میں ایک باعزت مقام چاہتی ہو مگر ایک خوف تمہارے قدم روک رہا ہے ۔ ۔بے سائبانی کا خوف   ماضی کا خوف ۔  میں اس پل صراط سے گزرنے میں تمہاری مدد کروں گی ۔مجھ پر بھروسہ کر سکتی ہو ؟‘‘میں خود اس کے دکھ سے ریزہ ریزہ  ہو رہی تھی ۔

’’ نہیں   پل صراط تو سچ اور جھوٹ کا وہ درمیانی فاصلہ ہے جس سے آپ مجھے گزارنا چاہتی ہیں ‘‘  وہ رک گیی اور ناخنوں کو دانتوں سے کترنے لگی ۔

’’ آپ کی باعزت دنیا کی طرف لوٹ کر تو میں تمام عمراسی پل صراط پر چلتی رہوں گی  کیونکہ میرا سچ ان کےلیے جھوٹ اور ان کا جھوٹ میرا سچ ہو گا ۔ ۔میں ہر سانس   ہر لمحہ اس پل پر معلق رہوں گی ۔بہتر ہے میں اپنے جھوٹ کے ساتھ ہی زندہ رہوں   دوئی کا عذاب بہت شدید ہوتا ہے ۔ ۔۔‘‘  وہ سسکنے لگی

’’ کہاں سے آ گئی ہیں آپ میری زندگی کو ڈسٹرب کرنے ۔ ۔میرے جذبوں کو جگانے   جاییں چلی جاییں   جایں یہاں سے ‘‘ وہ میز پر سر رکھ کر رونے لگی

’’ میرے بھی خواب ہیں ایک گھر کے خواب،  تحفظ کے خواب  گود میں  ہمکتے بچے کے خواب جس سے کسی کا نام جڑا ہو ۔ ۔لیکں تعبیر کون دے گا ؟ ‘‘ وہ دھیرے دھیرے روتی اور بڑبڑاتی رہی ۔ جانے کتنی صدیوں کا غبار آج دھلا تھا ۔

میں کنفیوز ہو گیی، سوچ میں پڑ گئی۔  دماغ میں جھکڑ چلنے لگے ۔ میں نے ایک فیصلہ کیا جس کی بنا پر میں تمام  ہاری ہویی بازیاں  جیت سکتی تھی۔ میری راتٰیں بھی تو سنسان تھیں  زروجواہر کے انبار کے باوجود ، جسم و جاں کا خلا محفلوں اور سگریٹ کے دھوییں سے پر کرنے کی ناکام کوشش کے باوجود  ۔۔  میرا بزنس مین شوہر مجھے آسودہ کرننے کی  بجائے نئی نئی شکار تلاشتا رہتا ہے ۔ ۔اسے گھر کا اسیر کرنے کی ضرورت تھی۔ ۔ یہ سودا مہنگا تو نہیں اگر وہ ہزار ٹکروں میں بٹنے کی بجائے دو ٹکڑوں تک محدود ہو جائے ۔ اور پھر جہاں کسی بھائی یا باپ کے عہدے کا لیبل بھی نہ ہو  وہاں آخری جیت تو میری ہی ہو گی  ۔۔۔ ۔میں اپنے مرد کو اتنا تو جانتی ہوں کہ ۔ ۔ ۔

میں نے بے حد آسودہ مسکراہٹ کے ساتھ اس کے شانے پر ہاتھ رکھا ،

’’ اٹھو گھر چلیں‘‘

’’ کونسے گھر ‘‘ اس نے چونک کر پوچھا

’’ میرے شوہر کی دلہن بنو گی ‘‘

Facebook Comments Box

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.

Calendar

April 2024
M T W T F S S
1234567
891011121314
15161718192021
22232425262728
2930