آخری ملاقات ۔۔۔ نیئر مصطفیٰ

آخری ملاقات

نیئر مصطفی

سرمئی بادلوں کے گالے سیف الملوک کے نیلگوں پانی میں اپنا عکس دیکھنے کی اِچھا لیے نہ جانے کتنی طویل مسافتوں کو بھوگ آئے تھے مگر کبھی کبھار یوں بھی تو ہوتا ہے کہ اصل کی تلاش میں بھٹکتا مسافر کچھ نئے سرابوں کی طرف کھچا چلا جاتا ہے۔

جھیل کے نیلے کینوس پر ٹوٹے پھوٹے عکس بنتے اور بگڑتے رہے۔

بادلوں کے گالے کبھی چنگھاڑتے شیروں کا روپ دھار لیتے تو اگلے ہی لمحے البیلے کھجوروں کا جھنڈ بن جاتے، پھر ایک کوئل سی دوشیزہ ناک پھلائے ہنسنے لگتی۔

میں جھیل کے کچھ ہی فاصلے پر ایک چھوٹے سے ریسٹورنٹ میں بیٹھا روپ بہروپ کے اس ازلی کھیل تماشے کو دیکھے گیا حتی کہ میں خود اس ڈیوائن ٹریجڈی کا ایک کردار بن گیا۔

جونہی سرمئی رنگ میں لپٹی بدلیوں کو اپنے بہروپئے پن کا احساس ہوا، سایئں سایئں کرتی ہوا آنسووں سے بھر گئی۔ اونگھتا ریسٹورنٹ ایک دم جمایئاں لیتا بیدار ہوا اور دودھیا بلونگڑوں کی سی معصومیت کے ساتھ اس ادھ کھلے منظر میں جھانکنے لگا۔

میں اپنی جیکٹ کا ہڈ اوپر کرتا پینٹ کی جیبوں میں ہاتھ ڈالتا ریسٹورنٹ سے باہر نکلا اور سیف الملوک کے پانیوں میں کود کر خود کشی کرتی بوندوں کو دیکھتا رہا ، یہاں تک کہ ہوا کے دوش پہ جھومتا بارش کا ایک تھپیڑا میرے منہ سے ٹکرایا اور سارا کیمپس جَل میں ڈوب گیا۔

میں روزی گارڈن کے ایک بنچ پر بیٹھا اس کے چہرے پہ گرتی پھواروں کو دیکھ رہا تھا۔

” کوئی بات کرو۔۔۔کوئی خوشبو جیسی بات کرو۔ ” میں دھیمے سروں میں گنگنایا

سر مست ہوایئں ایک دم بے قابو سی ہو گیئں۔

” آپ اچھی طرح سے جانتے ہیں مجھے ایسی کوئی بات نہیں آتی۔ ” اس نے تھوڑا بگڑ کر جواب دیا۔

” میں نہیں چاہتی کہ میری وجہ سے کسی کا دل ٹوٹے اور ویسے بھی آپ جو سوچ رہے ہیں وہ ممکن نہیں۔

بارش شاید تھم چکی تھی، رگ و پے میں حبس سی اترنے لگی۔

” میری فکر مت کرو۔ ۔۔۔۔ میں ان لوگوں میں سے ہوں جو ثابت ہوں تو سونا اور ٹوٹ جایئں تو کندن ہو جاتے ہیں۔ میری پوری زندگی لفظ ‘ ناممکن’ سے ممکن کشید کرتے گزری ہے۔ بہر حال اس بات کو چھوڑو، ہوگا وہی جو تم چاہو گی۔ ” میرے لہجے میں نہ چاہتے ہوئے بھی دم توڑتی محبت کا کرب اور کچلی ہوئی انا کے نوحے گھل گئے۔

وہ خاموش رہی ۔۔۔۔۔ بالکل خاموش

جلد ہی میری سانسیں خاموشی کے گھمبیر بوجھ تلے دبی ہانپنے لگیں۔

” تم نے بچپن میں گڑیوں کے ساتھ تو ضرور کھیلا ہوگا ؟ “

” ہاں جی ڈھیر سارا۔ ۔۔۔۔۔ ایک بار جب میں فرسٹ آئی تو بھائی جان نے مجھے ایک نیلی آنکھوں والی باربی ڈول گفٹ کی تھی۔ ۔۔۔۔ اس روز میں نے آئس کریم کھائی تو ہمیشہ کی طرح اپنے ہاتھ اور فراک خراب کر لیے مگر گڑیا پر ایک داغ بھی نہیں لگنے دیا۔

” تو پھر سنو ۔۔۔ جب تک تم نے اس نٹ کھٹ گڑیا کو یاد رکھا تب تک تم زندہ رہو گی اور جس دن تم اسے بھول گیئں اس روز تم لوگوں کی بھیڑ میں گم ہو جاوگی ۔۔۔۔ ہمیشہ کے لیے گم ۔۔۔۔ “

بادل ایک دم زور سے گرجے۔

” اور تمہیں پتہ ہے، ایک روز میں بھی وہی نیلی آنکھوں والی گڑیا بن کر تمہارے ماضی کا ایک انمٹ حصہ بن جاوں گا۔ ۔۔۔۔۔ یاد تو کروگی ناں ۔۔۔۔؟

” آپ کو ایسا کیوں لگتا ہے مجھے آپ سے محبت ہو جائے گی۔ ” اس نے تھوڑا سا الجھ کر پوچھا۔

” پتا نہیں ۔”

میں بنچ سے اٹھا اور ناک کی سیدھ میں چلتا گیا یہاں تک کہ کیمپس نگاہوں سے اوجھل ہو گیا۔

چند لمحوں تک جھیل سیف الملوک کے ساکت پانی میں اپنا عکس تلاش کرنے کے بعد میں نے پیچھے مڑ کر دیکھنے کی کوشش کی مگر دھند اتنی بڑھ چکی تھی کہ مجھے کچھ نظر ہی نہیں آیا۔

Facebook Comments Box

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.

Calendar

April 2024
M T W T F S S
1234567
891011121314
15161718192021
22232425262728
2930