نظم ۔۔۔ شاہین کاظمی

نظم

شاہین کاظمی

داستان ، شامِ ابد کے بپاہونے سے پہلے کئی بار

نقرئی پانیوں کے اوپر جھکے نیلے آسمان کی وسعتوں میں

سفید پرندوں کی اڑان دیکھتی ہے

ہوا تھمتی ہے تو بادبان لپیٹے جانے ہیں

دور سمندر کو چھوتے ہوئے افقی کنارے کے اُس طرف سے

ابھرتی سیاہ لکیر

بے کنار مسافتوں کی گواہ ہے

نقارے پر چوٹ پڑ رہی ہے

دھما دھم دھما دھم

پرندوں کے سفید پروں پر دھری بشارتیں

گرتی ہیں

مگر چپو چلانے والے ہاتھ تھک چکے ہیں

ہوا انھیں چھو کر خوشخبریاں اُن پر انڈیلتی ہے

لیکن ویران ساحلوں کی گود میں سوئےقدیم لمحوں کی نیند

نہیں ٹوٹتی

داستان ادھوری ہے

داستان گو سستانےکے لئے چوبی عرشے سے ٹیک لگاتا ہے

دور سمندر کو چھوتے ہوئے افقی کنارے کے اُس طرف سے

ابھرتی سیاہ لکیر گہری ہونے لگتی ہے

سمندر سورج نگل رہا ہے

اُڑان بھرتے سفید پرندے

سرعت سے پانی کی طرف ایک طویل جست لگاتے ہیں

پروں کی تیز آواز سکوت کا سینہ چاک کرتی ہے

مگر چوبی عرشے سے ٹیک لگائے

داستان گو ساکت ہے

تکمیل کی متلاشی داستان خاموشی سے

شامِ ابد کے دامن میں منہ چھپا لیتی ہے

Facebook Comments Box

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.

Calendar

March 2024
M T W T F S S
 123
45678910
11121314151617
18192021222324
25262728293031