غزل ۔۔۔ شہلا شہناز
غزل
(شہلا شہناز)
کسی تتلی کی طرح اِذن ِ رسائی دیتی
کبھی چھپ جاتی کبھی تجھ کو دکھائی دیتی
میں تو اب خودکو بھی معتوب نظر آنے لگی
عشق کے باب میں کیا اپنی صفائی دیتی
ایسی بھی تو میری بے جان نہیں تھی آواز
دل سے سنتا تو میری چپ بھی سنائی دیتی
یہ جو آسانی سے آتی نہیں قرطاس پہ میں
کچھ سہولت تو مجھے حرف نمائی دیتی
اپنی منزل کے تصور میں مجھے سوچتا تو
اور میں رستے کی طرح تجھ کو رسائی دیتی
Facebook Comments Box