To Sir, with Love ….ڈاکٹر صابرہ شاھین

To Sir, with Love!!

اپنے استاد محترم ڈاکٹر سلیم اختر کے لیے

ڈاکٹر صابرہ شاہین

اپنے مضمون   ”  سر راہ چلتے چلتے”  میں استاتذہ کرام کا حلیہ بیان کرتےہوئےجب میں نے یہ سطریں لکھیں ‘چند ثانیے بعد  بے تکلف  مسکان لیے اِک لانبا سا ‘ سانولا سلونا کیوٹ سا اَپ ٹو ڈیٹ بابا کلاس میں آگیا ۔ اپنے وقتوں میں  خاصے کی چیز رہا  ہوگا۔ چھوٹی چھوٹی ہنستی آنکھیں’ہنستے لب اور ایک فقرے میں چار مرتبہ بڑی معصومیت سے ” مطب ہے”(مطلب ہے)  بطور تکیہ  کلام استعمال کرنے والا یہ ڈاکٹر  سلیم اختر  کچھ دوست  دوست سا لگا۔ سیدھا سیدھا پروفیسر  جس کی شخصیت  اور ذات میں کوئی گنجھل نہیں ” (  حالانکہ بعد میں  کھلا کہ موصوف ایک وقت تک  نفسیات کے امام فرائیڈ  کے چیلوں میں شامل رہے ہیں ) تو گمان  گزرا کہ  اس سے اچھی اور مکمل لفظی تصویرممکن ہی نہیں مگر کیا  یہ سچ تھا  ؟ ہر گز نہیں۔  ظاہری شکل و صورت سے  ہو سکتا ہے  اس شبیہ کو ڈاکٹر سلیم اختر سے  مماثل  شبیہ کہا جا سکتا ہو مگر اند ر کا حقیقی و اصل  والا ڈاکٹر سلیم اختر تو فرائیڈ کے نظریات   کی طرح  پر پیچ ( میری نظر میں) اور متنازعہ ہے۔ یقین نہ آئے تو  انہیں ان کے افسانوں ‘   تنقید ‘ اردو ادب کی تاریخ  اور سب سے بڑھ کر  رسالہ   معاصر میں چھپنے والی  اُن کی آب بیتی میں دیکھیئے ۔

           اس کے علاوہ  ”  اُردو ادب کی  مختصر ترین تاریخ ” کی بعض نرمل  ‘ نمکین اور چسولی  ہیڈنگز کیا آپ کو ایک  رومانوی  انسان  کا پتہ نہیں دیتیں۔ خیر چھوڑیے  ہم یہاں رومانوی  انسان ‘  حقیقت پسندی  کا مارا ہوا آدمی یا حلقہ ارباب  ذوق کے حلقوں کا نقشہ  کھینچنے  نہیں  بیٹھے۔  ہمارا مطلب تو صرف یہ ہے کہ بطور استاد  ہم نے ڈاکٹر سلیم اختر کو کیسا پایا؟  اور دلچسپ واقعہ  یہ ہے کہ  ان کے  حصے میں زیادہ تر  وہ شاگرد آئے جو ناری مخلوق  کی طرح  کولہے  پر ہاتھ رکھ کے مسکراتے ہوئے  یزداں سے کہتے ہیں ” حضور ہمیں یوم   حساب تک جینے کی مہلت  عطا کر دیجئیے تاکہ ہم تیرے بندوں کو بھٹکائیں بھی اور پھڑکائیں بھی”۔

                مگر ڈاکٹر سلیم اختر صاحب  کسی کی تحریک یا کسی کے  ایما پر  بھٹکنے والی ہستی نہیں۔  ہاں من مرضی  سے چاہیں تو  روز ن دیوار   سے رقص رنگیں کا نظارہ کر لیں۔

                       نومبر 2000 ء  کے دن تھے جب پہلی مرتبہ مجھے ڈاکٹر سلیم اختر سے ملنےکےلیے ان کے گھر  جانا پڑا ۔ راستہ پوچھنے کے لیے پبلک بوتھ سے  فون کرتے ہوئے  ہم نے ادب سے کہا ۔

              ” ہیلو۔ ہیلو۔ سام لیکم سر ” ( انگلش سٹائل  کمبختی مارا)

 ” والیکم ” ۔  ایک ہتھوڑا سا برسا۔

              کرم میرے مولا۔ یہ کیا ہوا؟ تقریبا ہکلاتے ہوئے کہا آپ کے گھر کیسے آؤںمیں ؟ میں …………… وہ ………. آپ یہاں سیکر ٹریٹ  کے پاس رہتی ہوں”۔

            “تو ٹھیک ہے “(کوئی روبوٹ بولا) ” رکشہ لے لو۔یہی کوئی چالیس پنتالیس لے لے گا۔اور اگر 47نمبر پر آو تو سیکرٹرینٹ سے مل جائے گی۔پانچ روپے خرچ ہوں گے۔ ڈرائیو کو بتا دو کہ ……..”اور پھر پورا ایڈریس سمجھا دیا۔سی…….ہا۔ اک لمبی سے سانس چھوڑتے ہوئے ہم نے اُس روبوٹ کو پہچاننے کی ناکام کوشش کی اور پھر اپنے ہاسٹل کے کمرے میں بستر پر آکر ڈھے   سےگئے :

شہر پھیلے آدمی تنہا ہوئے

            اپنی ہی غزل کا یہ مصرعہ نجانے اور کتنی دیر وردِ زبان رہتا کہ یاد آیا ٹھیک پانچ بجے ڈاکٹر صاحب کے ہاں جانا ہے ۔جیسے تیسے مرشد روحانی کے گھر پہنچے ۔بیل بجائی تو سلیم صاحب نے خود دروازہ کھولتے ہوئے پوچھا “کہو بھائی کوئی مشکل تو پیش نہیں آئی۔”

            “نہیں سر ۔”۔۔۔ ڈرائینگ روم سے گزرتے ہوئے ہم  نےکچھ سٹرھیاں طے کیں جو اُوپر کی منزل پر ایک اور ڈرائینگ روم میں ختم ہورہی تھی۔سفید کور سے ڈھکے ہوئے صوفوں میں سے ایک پر میں بیٹھ گئی اور ساتھ والے پر ڈاکٹر صاحب اپنے مخصوص انداز میں بیٹھ گئے ۔

            “ہاں بھائی “!گویا یہ اشارہ تھا مشکل بیان کرنے کا ۔

            میں نے آہستہ آہستہ کہنا شروع کیا اور تھوڑی دیر میں دیکھا کہ روبوٹ کے جبڑوں میں نرمی آچکی ہے۔ پھر ایک مسکان ابھری اور روبوٹ غیر دوست حاضر۔یہ غالباً سلیم صاحب کی عادت ہے نہ خود کسی اجنبی سے بات کرنے میں پہل کرتے ہیں اور نہ ہی کوئی اپنائیت کا تاثر دیتے ہیں البتہ اجبنی اگر گفتگو کرتے ہوئے اجنبیت کے پردے چاک کردے تو دوست بننے میں دیر نہیں لگاتے۔

            ہم نے بھی اُس دن موقع غنیمت جانتے ہوئے ادبی دنیا اور ادیب دونوں کے جتنی چغلیاں ممکن تھیں کیں۔ سلیم صاحب کو مسکراکر ہاں ہاں میں ملانے کا خوب ملکہ ہے۔بد گوئیوں سے ہٹے تو پھر زمانے بھر کے دوسرے موضوعات پر بحث کر ڈالی۔

            آخر میں سلیم صاحب نے مسکراتے ہوئے کہا”آج ہم تمہیں موتی چور کے لڈو کھلائیں گے”اور کچھ ہی دیر بعد پاؤ  بھرکے کئی گول گول سندر سے گیند میز پر حاضر۔ ہم نے اس شئے کا صرف نام سنا تھا کبھی کھانے کا اتفاق نہ ہوا تھا۔ لہٰذا ایک پلیٹ میں ایک لڈو لیا اور نفاست سے انگشت شہادت اور انگوٹھے کی مدد سے ہلکا سے دبانے کی کوشش جو کی تو پھس کی آواز کے ساتھ پورا لڈو ریزہ ریزہ دور تک بکھرتا گیا۔ سلیم صاحب نے کھڑے ہوکر لڈو کی مار کا اندازہ لگا یا اور بولے”کوئی بات نہیں مائی آکر صاف کردے گی اور پھر اپنی نشت پر بیٹھ گئے۔ جب کہ ہم شرمندہ و ہراساں ہونٹوں پر زبان پھیرتے رہ گئے ۔کسی نے تکلفاً بھی نہ کہا کہ بیٹا دوسرا گیند اُٹھا لو۔

            ملاقاتوں کا یہ سلسلہ درزا ہوتے ہوئے معمول بن کیا جو اب بھی ہے ۔تکلف اور بناوٹ سے دور بھاگنے والا یہ استاد اپنے علمی روگ اور دبدبے  سے کسی کو لرزانے اور کانپنے پر مجبور نہیں کرتا۔ مصنوعی فاصلے پیدا کرکے ریڈی میڈ مدبرین کی طرح تدبر کی قلفی نہیں لگاتا بلکہ شاگردکی ذہنی سطح پر آکر گفتگو کرتا ہے۔ سٹوڈینٹ کے مسائل سنتا ہے اور اپنے خلاف تیز و طرار جملے نہ صرف برداشت کرتا ہے بلکہ اُنہیں انجوائے کرنے کا فن بھی خوب جانتا ہے۔

            سلیم صاحب کے ڈرائینگ روم میں تین تصویریں لگی ہیں جنہیں میں ہر دفعہ بڑے انہما ک اور ندیدے پن سے دیکھتی ہوں۔بس نہیں چلتا اُتاروں اور بغل میں داب کر رفو چکر ہوجاؤں۔میری اِس غیر معمولی دلچسپی کو دیکھتے ہوئے سلیم صاحب نے اپنے ہمسائے میں رہنے والے مصور اسلم کمال سے ملوانے کا وعدہ کرلیا۔ کچھ دنوں بعد ہم نے اشتیاق سے وعدہ یاد دلایا تو بولے “بھائی اُن کی تصاویر تو یہاں اُن کے پاس نہیں ہے”ارے یہ کیا؟خیر وجہ کوئی بھی رہی ہو ہم اسلم کمال کے نیوڈ ماڈلز کی مصوری دیکھنے سے محروم رہ گئے اور ہماری دلجوئی کرتے ہوئے سلیم صاحب نے یہ وعدہ کیا ہے کہ جوں ہی انہیں نئی تصاویر ملیں گی وہ یہ تینوں تصویریں مجھے گفٹ کر دیں گے:

                                                کہ خوشی سے مرنہ جاتے اگر اعتبار ہوتا

            بات دراصل یہ ہے کہ ایک دفعہ میں اُن کے گھر دوپہر کے کھانے میں جبراً شامل ہوگئی(یعنی خود فرمائش کرکے کھانا کھایا۔اکثر ایسا ہی کرنا پڑتا ہے)کھانے کی میز پر سندھ سے آیا ہوا کوئی خاص قسم کا سوہن حلوہ بھی رکھا تھا۔ سر نے اُس کے ذائقے اور خوشبو کی بطور خاص تعریف کی اور کہا “تم کھا کر دیکھو”۔ہم بھی ٹھہرے اپنے طرز کے ندیدے “سر اُس وقت گرمی میں کھانے کو دل نہیں کررہا ۔  تھوڑا سا ساتھ کردیجئے گا چکھتے  رہیں گے”۔بڑی خوشی سے ہماری تجویز سے اتفاق کرلیا ۔

مگر مجھے وہ لمحہ اچھی طرح یاد ہے جو خداحافظ کہتے ہوئے میں نے بار بار اُن کی طرف دیکھا تاکہ اُنہیں بھولا اپناوعدہ یاد آجائے۔ مگر وہ یوں بن گئے جیسے کوئی وعدہ تھا ہی نہیں۔

            سلیم صاحب ہر بات ہر مسئلے کو بہت لائٹ لیتے ہیں اور دوسروں کو بھی سنگینی حالات سے ہراساں کرنے کی کوشش نہیں کرتے۔میرا ایم ۔فل کا تھیسسس مکمل نہیں ہورہا تھا جس کی وجہ سے میں پریشان تھی۔ میں نے سر سے کہا”وقت گزرتا جارہا ہے اور میرا کام “……بولے “کوئی بات نہیں کوشش کرو ہوجائے گااور پھر تمہارا موضوع بھی بہت مختصر سا ہے”مگر سر …….مسکراکر بولے “تو پھر کسی سے لکھوالو “جی ای ای……..سر “میں نے اُن کا منہ تکنا شروع کردیا۔”اُو بھائی حیران کیوں ہوتی ہو ۔سب جانتے ہیں جس کے پاس پیسہ ہے وہ پیسہ خرچ کرکے تھیسس لکھوالیتے ہیں”(غضب خدا کا اب بھلا کوئی کیا کہے)تھیسسس مکمل ہوگیا تو اُس کو جانچنے اور بہتر بنانے کیلئے وقت بالکل نہ تھا لہذا اُسے خام صورت میں جمع کرادیا۔ میں نے منہ بسورتے ہوئے کہا “سر اتنا برُا کام تو کسی کو دکھانے کے قابل بھی نہیں ہوتا۔”ہنس کر بولے۔

            “اُو بھئ خود لکھا ہے نہ ۔بس یہی اطمینان کافی ہے۔

“ڈاکٹر صاحب اچھی خاصی خوبصورت لائبیریری کے مالک ہیں۔ مگر مجال ہے جو کسی طالبعلم کو کوئی کتاب اُدھار دے دیں۔(میری معلومات کی حد تک )مجھے ایک کتاب کی شدید ضرورت تھی اور اطلاع تھی کہ آپ کے پاس موجود ہے۔بڑی منت کی بہت ترلے کیے مگر وہی “ڈھاک کے تین پات”۔

            “بھئی گھر وائٹ واش کراتے وقت میں نے تمام کتابیں بوریوں میں بند کردی تھیں ۔ تمہاری مطلوبہ کتاب  ہےبھی ملنی مشکل ہے۔

” مجھے نہیں پتہ سر ۔۔۔ میں خود ڈھونڈ لوں گی ۔ “

میرے مسلسل اصرار پر انہوں نے خزانے کا در وا کیا۔ کچھ کتابیں بند تھیں اور کچھ شلف میں لگی تھیں ۔میں نے ادھر اُدھر نگاہ دوڑائی اور انتقاماً سلیم صاحب کے افسانوں کا مجموعہ اُٹھا لیا۔

            “دیکھو لڑکی !یہ ایڈیشن اب بازا ر میں بھی نہیں ملتا۔”

            “کوئی بات نہیں سر میں واپس کردونگی ۔”میری آنکھیں شرارت سے مسکرائیں۔(مسلسل اسرار پر یہ مجموعہ تو واپس کردیا مگر کئی دوسری کتب دابنے کے بعد )کمرہ نمبر7میں بابو خان سب کو چائے بنا کر پلاتے تھے اور سلیم صاحب کا کمرہ بھی یہی تھا۔میں اکثر و بیشتر سلیم صاحب کی کرسی پر بیٹھ کر بابو خان سے چائے پیا کرتی۔ ایک دن حسب معمول سلیم صاحب کی ایکٹنگ کرتے ہوئے میں نے بابو خان سے کہا۔”دیکھئے بابو خان ہم ڈاکٹر سلیم اختر ہیں اور آپ ہماری …….”اور ایک دم سلیم صاحب کمرے میں آگئے ۔میں نے جلدی سے کرسی چھوڑنے کی کوشش کی تو ہینڈ بیگ نیچے گر گیا۔ سلیم صاحب نے ہماری پریشانی دیکھی تو مسکرا کر بولے “کوئی بات نہیں بھئی ۔بیٹھی رہو……بیٹھی رہو۔آج ہم تمہاری کرسی پر بیٹھیں گے”اور واقعی قریب کی دوسری کرسی پر بیٹھ کر انہوں نے اپنے تمام تدریسی معاملات نمٹائے ۔یہ گویا اجازت نامہ تھا۔ پھر باقی ڈیڑھ سال ہم نے سلیم اختر کی کرسی پر بیٹھ کر ڈاکٹر ہونے کی ایکٹنگ کی اور مزے لیے ۔

مگر ایک بات ابھی تک سمجھ میں نہیں آئی کہ سر کی پینٹ ہمیشہ بیلٹ سے محروم کیوں ہوتی تھی۔

            خیر چھوڑیئے ہم کہہ رہے تھے کہ ہر فنکار اپنی تخلیق کی شہرت اور پسندیدگی دیکھ کر خوش ہوتا ہےاور تعریف سننے کی خواہش بھی غیر فطری نہیں ۔جس دن میں نے سر کو بتایا کہ اُن کے افسانوں کا مجموعہ “مٹھی بھر سانپ “پورے ہاسٹل میں  گردش کر رہا ہے اور لڑکیاں کھانے کی میز پر آپ کے افسانوں کو ڈسکس کرتی ہیں اور اُن کی چہرہ سے پھوٹنے والی خوش کی انتہالہریں دیدنی تھی۔

            مگر حرام ہے جو “معاصر “میں میری چھپنے والی کسی غزل یا نظم کا اُنہوں نے جھوٹے منہ ذکر تک کیا ہوایک آدھ بار میں نے خود پوچھا تو شریر لہجے میں بولے”میں فضول چیزیں نہیں پڑھتا”…….اگر ایسا ہے تو میری نظم “کہیں تو زندگی ہوتی “پڑھ کر اتنی خوشی سے کیوں کہا تھا”لڑکی تم تو سچ مچ بہت اچھا لکھتی ہو”اُنہوں نے مسکراتے ہوئے کہا کہ تم ہو ہی فضول  اور کاریڈور پار کر گئے۔

            ٹھیک ہے سر !کبھی کے دن بڑے کبھی کی راتیں ۔

            یہ جھگڑا بھی جاری ہے۔

Facebook Comments Box

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.

Calendar

April 2024
M T W T F S S
1234567
891011121314
15161718192021
22232425262728
2930