ہجر کا پرتو ۔۔۔ تنویر قاضی
ہجر کا پرتوِحسیں وصل کے اژدھام میں
تنویر قاضی
آنکھوں کے ڈوروں میں نہیں
گُلدستہءِ نیند میں کہیں
رہتا ہے ایک خواب سا
بارہ دری کی اوٹ میں
باغ کے
سُرخ گلاب سا
کالے ہرن نے راستہ
روکا ہوا ہے
رات سے
بانوءِ شہر سے کیا
وعدہ
زوالِ شب میں ہے
دن کا کبوترِ سپید
اب تک ملال شب میں ہے
ہجر کا پرتوِ حسیں
عرشِ بریں سے
خاک تک
وصل کے اژدھام میں
جس کا سرکنا سب میں ہے
جلسہءِ عارض و لب میں ہے
سیاہ غزال کی تلاش
Facebook Comments Box