مسجد کے سائے میں ۔۔۔ سعیدہ گزدر
مسجد کے سائے میں چھوٹا سا بچہ وہ ننھا فرشتہ بے بس، بے گھر چلنے
مسجد کے سائے میں چھوٹا سا بچہ وہ ننھا فرشتہ بے بس، بے گھر چلنے
شیطان اور روٹی کسان نے علی الصبح ناشتے کے لیے ایک روٹی لی اور کھیت
ساسانِ پنجم دور دور تک پھیلے میدانوں میں بکھری ہوئی ان کوہ پیکر سنگی عمارتوں
نظم بہت آسان تھی پہلے نظم بہت آسان تھی پہلے گھر کے آگے پیپل کی
ایک نظم کہیں سے بھی شرو ع ہو سکتی ہے ایک نظم کہیں سے بھی
جنگل کا قانون (بلوچی کہانی ) دفتر میں داخل ہوتے ہی وہ حیران رہ گیا۔
باو ناں تاں اکبر علی بھٹی سی اوہدا، پر یار سارے اوہنوں باو ای سدن
وقت دی لاش جیہناں نے پت جھڑ دے آخری دن بُکل چ سانبھ لئے سن
سوال سڑکوں پہ سناٹا ہے اور جن عمروں میں مائیں بیٹوں کے سگریٹ سے سلگے