غلام محمد قاصر۔ شاعری کے رنگ ۔۔۔ ثمینہ احمد


غلام محمد قاصر

ایک بڑے شاعر کی شاعری کے مختلف رنگ اور جہتیں

ثمینہ سید

شاعری خوب صورت رنگوں کے پھولوں سے سجا ہوا گلدستہ ہے۔

ہر رنگ اور ہر ایک پھول اپنی جگہ اہم ہے ایکدوسرے سے الگ اور منفرد ہے۔جیسے پھولوں کی وضع قطع مختلف ہے ایسے ہی خوشبوبھی الگ ہوتی ہے اور اس کے دیوانے بھی الگ الگ مزاج کے لوگ ہوتے ہیں۔شاعری کے افق پر بھی کتنے ہی ستارے ابھرے اور معدوم ہوٸے۔ کچھ شہرت سے ہمکنار ہوٸے لیکن کچھ لوگ ایسے بھی ہیں جنہوں نے شہرت کی تمنا ہی نہیں کی وہ زمانے کی ان تیزیوں طراریوں میں پڑنا ہی نہیں چاہتے تھے۔ لیکن ایسے ایسے زندہ شعر کہہ گٸے جو ہمیشہ ان کا حوالہ بنے رہیں گے۔

کروں گا کیا جو محبت میں ہو گیا ناکام

مجھے تو اور کوٸی کام بھی نہیں آتا

انکساری کا حسن اپنے جوبن پر ہے اور لہجے میں دھڑکتی ہوٸی محبت فاتح عالم ہے۔میری اور آپکی محسوسات کی عکاس ہمارے بعد آنے والوں کی نباض

خارچمن تھے شبنم شبنم پھول بھی سارے گیلے تھے

شاخ سے ٹوٹ کےگرنے والےپتے پھربھی پیلےتھے

تم یونہی ناراض ہوئے ہوورنہ مے خانے کا پتہ

ہم نے ہر اس شخص سے پوچھا جس کے نین نشیلے تھے

تیز نہیں گرآنچ بدن کی جم جاٶ گے رستے میں

اس بستی کو جانےوالی پگڈنڈی یخ بستہ ہے

غزل کے شعروں میں جذبوں کی ایسی آنچ بہت کم کم ملتی ہے۔غلام محمد قاصر نے فطرت کو انسان کی زندگی کے ہمرکاب رکھا ہے۔وہ لفظوں سے کھیلنے کا ہنر جانتا تھا۔اسے سنہرے خواب بھی آتے تو بے یقینی نہ جاتی۔روشنی بھی آنکھوں کوچندھیا رہی ہوتی تو وہ اس کے پیچھے کا اندھیرا دیکھتا۔اس میں شاید اس کی زندگی کے اس کے تجربات کے ملال تھے جو اسے خوش امید نہ ہونے دیتے۔پھر بھی امید کے بغیر کیسے جیا جا سکتا ہے۔ قاصر بھی بےاختیار کہتا

سورج کی سنہری گٹھڑی میں

کچھ خوابیدہ سی لالی تھی

پت جھڑ کے ہراول دستے میں

پھولوں سے لدی اک ڈالی تھی

کیسی انوکھی تشبیہات ہیں۔کیا استعارے ہیں۔دل خودبخود داد سے بھر جاتا ہے۔پت جھڑ کو ہجر سے نسبت رہی ہے ہمیشہ،خزاں کی افسردگی سے نسبت رہی ہے۔۔یوں پھولوں سے لدی ڈالی کو پت جھڑ میں کس نے دیکھا ہوگا۔انوکھے موازنے اور تلازمہ کا استعمال اس فنکاری سے کرنا کہ شعر کا حسن دوآتشہ ہوجاٸے

گل کو برہنہ دیکھ کے جھونکا نسیم کا

جگنو بجھا رہا تھا کہ تتلی چمک گئی

ایسا لگتا دھیان ہمہ وقت کسی گیان کے برزخ میں برہنہ پا محو سفر ہے۔درد کے موتی احساس کی پوروں سے چن چن کر شعروں میں ڈھالنے والا یہ درویش صفت شاعر شہرت کے لالچ سے دور تھا لیکن آج بھی کوٸی شاعری کے مہا ساگر میں اترے گا تو یہ گہر اپنی چھب ضرور دکھاٸے گا۔

الجھ نہ مہر سے تو اے مری شب تاریک

وہ جگنوٶں کے پروں میں شعاعیں بھر دے گا

گلیوں کی اداسی پوچھتی ہے گھر کا سناٹا کہتا ہے

اس شہر کا ہر رہنے والا کیوں دوسرے شہر میں رہتا ہے

ہر سال کی آخری شاموں میں دو چار ورق اڑ جاتے ہیں

اب اور نہ بکھرے، رشتوں کی بوسیدہ کتاب تو اچھا ہو

آیا ہے اک راہ نما کے استقبال کو اک بچہ

پیٹ ہے خالی، آنکھ میں حسرت ،ہاتھوں میں گلدستہ ہے

یہ اشعار پڑھتے ہوں آپ کیفیت کی گرفت میں نہ آٸیں ممکن ہی نہیں۔داد بےساختہ نکلتی ہے۔ شاعر دانستہ کوششوں سے وجود میں نہیں آتا وہ ودیعت کردہ کرم سے اسم بامسمیٰ یعنی پورے طمطراق سے شاعر ہوتا ہے۔ اس کی ہر سانس کے ساتھ اس کے احساسات لہجوں کے سکے بن کے چھنکتے رہتے ہیں۔وہ آپ کی محبتوں کا ترجمان بن جاتا ہے۔عام آدمی کے دکھ کا نوحہ بنتا ہے۔طنزو مزاح اور لطافتوں کو الفاظ میں پرونے کا سلیقہ دیتا ہے۔ قاصر جیسے شاعر کے پاس کیفیت کے سارے رنگ ہیں۔ساری آوازیں ہیں ان آوازوں کے شفاف کی مضبوطی کو ڈھونڈنے کی ضرورت ہے تبھی آپ اس کے منفرد اور متنوع ذاٸقوں کا مزہ لے سکیں گے۔

جاگتا ہوں تو بکھر جاتا ہوں کرنوں کی طرح

اتنے سورج مری نیندوں میں سمٹ آئے ہیں

گلی میں ہواٶں کی سرگوشیاں ہیں

گھروں میں مگر سب صنوبر اکیلے

سارباں محو تھا سن سن کے سکوت صحرا

چیخ محمل سے اٹھی ریت کے کہرام کے ساتھ

محبت اے محبت ایک جذبے کی مسافت ہے

مرے آوارہ سجدے سے تری چوکھٹ کے پتھر تک

چاند ہے کہ سورج ہے فیصلہ نہیں ہوتا

نیلگوں دوپٹے سے روشنی سی چھنتی ہے

یہ کوئی تخت و تاج نہیں ہے کہ چھوڑ دوں

سانسوں کا انحصارہے تیرے خیال پر

پہلے اک سائے سے خوشبو کو نکلتے دیکھوں

پھر وہ خوشبو تری آوازمیں ڈھل جاتی ہے

اس نے اک ایسی کہانی میں مجھے کاسٹ کیا

جس میں میرے لیے کردار نہیں ہے کوئی

قاصر کی شاعری جدت سے خالی نہیں ہے۔اور روایت کو بھی مضبوطی سے تھام رکھا ہے۔غنایت ایسی کہ شعر پڑھتے پڑھتے دھنبن جاتی ہے۔گنگناتے ہوٸے اشعار ہیں

ہم صبح سے چراغ جلاتے چلے گئے

اُس شام تک جو شام ملاقات بھی نہ تھی

محبت کی انوکھی رمزیں ان شعروں میں پنہاں ہیں۔یہ طاقتور انداز اظہار کچھ عجیب طرح کی طمانیت سے ہمکنار کرتا ہے۔

لکھتا ہوں تو پوروں سے دل تک اک چاندنی سی چھا جاتی ہے

قاصر وہ ہلال حرف کبھی ہو پائے نہ ماہ منیر تو کیا

شاعری ایسی ہوتو طبیعت بحال ہوجاتی ہے۔اس لیے ایسے توانا اور ہر عہد میں تروتازہ لہجے ہمیشہ زندہ رہیں گے اور ہر زمانے کے لوگوں کے اظہار کی زبان بنے رہیں گے۔

Facebook Comments Box

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.

Calendar

April 2024
M T W T F S S
1234567
891011121314
15161718192021
22232425262728
2930